تم اپنی صبحوں کے رنگ لکھنا کہ اپنی راتوں کے خواب لکھنا
بس اتنا کرنا جہاں بھی رہنا، میرے خطوں کے جواب لکھنا
پھر اتنی فرصت کسے ملے گی کہ مل کے بیٹھیں تو حال پوچھیں
مگر خطوں میں ہر ایک وعدے، ہر ایک قسم کا حساب لکھنا
مجھے تو تم نے قریب رہ کر بھی خیر جو جو اذیتیں دیں
تم اب جدائی کے موسموں میں اُٹھانا جو جو عذاب لکھنا
کبھی جو کچّے گھڑے کا قصہ تیری وفا کو غرور بخشے
عبور جب بھی کرنا چاہے ملامتوں کا عذاب لکھنا
تیری پریشانیوں کی خبریں یہ دکھتی آنکھیں نہ پڑھ سکیں گی
بدن میں کانٹے بھی چُبھ رہے ہوں، حرف مگر گلاب لکھنا
ہزار باتیں ہیں، چار راتیں ہیں، اس سے کیا کیا کہو گے خاور
وہ چہرہ پڑھ پڑھ کے یاد کر لو، وہ جا چکے تو کتاب لکھنا
ایوب خاور
No comments:
Post a Comment