Friday 30 March 2012

بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں



بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں
ضبط کے زرد آنچل میں اپنے
سارے درد چھپا لیتی ہیں
روتے روتے ہنس پڑتی ہیں
ہنستے ہنستے دل ہی دل میں رو لیتی ہیں
خوشی کی خواہش کرتے کرتے
خواب اور خاک میں اٹ جاتی ہیں
سو حصّوں میں بٹ جاتی ہیں
گھر کے دروازے پر بیٹھی
امّیدوں کے ریشم بُنتے ۔۔۔۔۔۔ ساری عُمر
گنوا دیتی ہیں

میں جو گیۓ دنوں میں
ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی
اب خود بھی تو
عمر کی گرتی دیواروں سے ٹیک لگاۓ
فصل خوشی کی بوتی ہوں
اور خوش فہمی کی کاٹ رہی ہوں
جانے کیسی رسم ہے یہ بھی
ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں
اپنا مقدّر دے دیتی ہے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets