اداس لمحوں میں آخر وہ مل گیا تھا مجھے
مری ہی آنکھوں کی چلمن سے جھانکا تھا مجھے
وہ قُربتوں کی تمازت سے جل رہا تھا کچھ اور
وہ آنسوؤں کی جھڑی سے بُجھا رہا تھا مجھے
لپٹ کے مجھ سے بڑی سادگی کے لہجے میں
نہ جانے کس کے فسانے سنا رہا تھا مجھے
اُسے یہ غم کہ تھا یادوں کے کرب میںتنہا
مجھے یہ شکوہ کہ اُس نے بھلا دیا تھا مجھے
میں خود ہی خواب جزیروں میںگم رہا شاید
وہ لہر لہر میں ورنہ پکارتا تھا مجھے
عجیب عالمِ وارفتگی میں ڈوبا ہوا
بڑے قرینے سے پھر آزما رہا تھا مجھے
مگر یہ کیسا تحّیر تھا اس کی آنکھوں میں
کہ دیکھتا تھا مجھے جیسے سوچتا تھا مجھے
نہ جانے کتنے نئے وسوسوں کا ناگ کرم
اتر کے میری رگ و پَے میں ڈس رہا تھا مجھے
No comments:
Post a Comment