مرے وجود کی مجھ میں تلاش چھوڑ گیا
جو پوری ہو نہ کبھی ایسی آس چھوڑ گیا
یہی کرم نوازی اُس کی مجھ پہ کم ہے کیا
کہ خُود وہ دور ہے ، یادیں تو پاس چھوڑ گیا
جو خواہشیں تھی کبھی حسرتوں میں بدل گئیں
مرے لبوں پہ وہ اِک لفظ “کاش“ چھوڑ گیا
یہ میرا ظرف ہے ، اِک روز اُس نے مجھ سے کہا
کہ عام لوگوں میں اِک تجھ کو خاص چھوڑ گیا
بہاروں سے مجھے کچھ اِس لئے بھی نفرت ہے
اِنہیں رُتوں میں مجھے وہ اُداس چھوڑ گیا
No comments:
Post a Comment