Monday, 27 February 2012

اِذنِ سفر کا ایک اِرشارا ہُوا تو ہے


ظاہر شِمال میں کوئی تارا ہُوا تو ہے 
اِذنِ سفر کا ایک اِرشارا ہُوا تو ہے 

کیا ہے! جو رکھ دیں آخری داؤ میں نقدِ جاں! 
ویسے بھی ہم نے کھیل یہ ہارا ہُوا تو ہے 

وہ جان، اُس کو خیر خبر ہے بھی یا نہیں! 
دل ہم نے اس کے نام پہ وارا ہُوا ہے 

پاؤں میں نارسائی کا اِک آبلہ سہی 
اِس دشتِ غم میں کوئی ہمارا ہُواتو ہے 

اُس بے وفا سے ہم کو یہ نسبت بھی کم نہیں 
کُچھ وقت ہم نے ساتھ کزارا ہُوا تو ہے 

اپنی طرف اُٹھے نہ اُٹھے اُس کی چشمِ خوش! 
امجد کِسی کے درد کا چارا ہُوا تو ہے

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets