تمہاری کھوج میں اپنا کمال کھو بیٹھے
جواب ڈھونڈ کے لائے، سوال کھو بیٹھے
عجب ہجوم تھا بے چینیوں کا سینے میں
ہم اتنی بھیڑ میں تیرا خیال کھو بیٹھے
جگہ جگہ پہ عجب بے کسی کا منظر ہے
نگر کے لوگ نگر کا جمال کھو بیٹھے
کبھی یہ لگتا ہے مجھکو میں ایسا تاجر ہوں
جو راستے میں ہی سب اپنا مال کھو بیٹھے
ہمارا وقت تیرے وقت سے زیادہ تھا
تیرے دنوں میں تو ہم اپنے سال کھو بیٹھے
کوئی نہ کوئی زیاں ساتھ ساتھ تھا ا پنے
خوشی کو ڈھونڈ کے لائے ملال کھو بیٹھے
No comments:
Post a Comment