پتھر سے وفا، بُت سے صدا مانگ رہا ہوں
کیوں آج میں صحرا سے گھٹا مانگ رہا ہوں
مُدّت سے کوئی دل کو دُکھانے نہیں آیا
آ جاؤ، کوئی زخم نیا مانگ رہا ہوں
ہے چاند بہت دُور میرے دستِ رسا سے
جو گھر میں جلے ایسا دِیا مانگ رہا ہوں
جو جرمِ محبت میں مجھے تیرا بنا دے
ایسی ہی کوئی پیاری سزا مانگ رہا ہوں
معلوم ہے تم غیر کے ہو جاؤ گے اِک دن
پھر بھی تمہیں پانے کی دعا مانگ رہا ہوں
No comments:
Post a Comment