آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
کل شب عجیب عکس مرے آئینے میں تھے
سارے دھنک کے رنگ تھے اُس کے لباس میں
خو شبو کے سارے انگ اُسے سوچنے میں تھے
ہربات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے
وصل و فراق دونوں ہیں اک جیسے ناگزیر
کچھ لُطف اسکے قرب میں، کچھ فاصلے میں تھے
سیلِ زماں کی موج کا ہر وار سہہ گئے
وہ دن جو ایک ٹوٹے ہوئے رابطے میں تھےِ
غارت گری کے بعد بھی روشن تھیں بستیاں
ہارے ہوئے تھے لوگ مگر حوصلے میں تھے
ہِر پھر کے آئےنقطۂ آغاز کی طرف
جتنے سفر تھے اپنے کسی دائرے میں تھے
آندھی اُڑا کے لے گئی جس کو ابھی ابھی
منزل کے سب نشاں اُسی راستے میں تھے
چھو لیں اسے کہ دور سے بس دیکھتے رہیں
تارے بھی رات میری طرح مخمصے میں تھے
جگنو، ستارے، آنکھ، صبا ، تتلیاں، چراغ
سب اپنے اپنے غم کے کسی سلسلے میں تھے
جتنے تھے خط تمام کا تھا ایک زاویہ
پھر بھی عجیب پیچ مرے مسلے میں تھے
امجد کتابِ جان کووہ پڑھتا بھی کس طرح
لکھنے تھے جتنے لفظ ابھی حافظے میں تھے
No comments:
Post a Comment