آنکھ کہتی ہے ُاسے پہلے کہیں دیکھا ہے
دل یہ کہتا ہے ' نہیں ' وہ تو کوئی اور ہی تھا
جس کی آغوش میں کلیاں تھیں، شرارے تو نہ تھے
جس کے ہاتھوں کوگلستان کہا کرتے تھے
جس کی باتوں سے بھی جینے کے کئی درس ملے
جس کے ہوتے ہوئے یہ درد ہمارے تو نہ تھے
اور جو تھا تو دریچوں پہ اُداسی بھی نہ تھی
ذرد پتّوں پہ بھی ہم وار دیا کرتے تھے
سُرخ پھولوں کا نکھار،اُوس کے موتی کی چمک
جس کے ہوتے ہوئے بےدرد نظارے تو نہ تھے
اور یہ شخص آیا ہے اُداسی لے کر
اس کی آغوش میں کلیوں کا کوئی نام نہیں
اس کے ہاتھوں کو گُلستان نہیں کہ سکتے
اس کے آنے پہ کوئی پھول نہیں مہکا ہے
وہی خاموش اُداسی ہے دریچوں پہ محیط
اسُ کے آنے پہ میرا دل بھی نہیں دھڑکا ہے
آنکھ کہتی ہے اُسے پہلے کہیں دیکھا ہے
طارق عزیز
No comments:
Post a Comment