آخری خط نہ پڑھ سکا میں بھی
آس کیا دیتا رو دیا میں بھی
صرف سننے کی تاب تھی شاید
وہ بھی خاموش ، چپ رہا میں بھی
ہجر کی سخت سرد راتوں میں
وہ بھی جلتا رہا ، جلا میں بھی
آج وہ ’’آپ‘‘ پر ہی ٹھہرا رہا
فاصلہ رکھ کے ہی ملا میں بھی
اوڑھ لی اُس نے چہرے پر رونق
سامنے سب کے خوش رہا میں بھی
غلطی سے آنکھیں چار ہوتے ہی
سخت محتاط تر ہوا میں بھی
وہ بھی اُلٹی کتاب پڑھنے لگا
کل کے اخبار میں چھُپا میں بھی
گڑیا ، گڈے کا کھیل تھا شاید!
مطمئن ہو کے سو گیا میں بھی
عمر بھر اُس کو عشق ہو نہ سکا
اور اِک روز جل بجھا میں بھی
ہر طرف لیلیٰ لیلیٰ ہوتے دیکھ
بن گیا قیس بے وفا میں بھی!
شہزاد قیس
No comments:
Post a Comment