Monday, 6 February 2012

جیسے کسی کی یاد نے سینے پہ ہاتھ رکھ دیا




کوئی تو تھا پسِ ہوا آخرِ شب کے دَشت میں
ہم سے ہم کلام تھا آخر شب کے دشت میں

جیسے کسی کی یاد نے سینے پہ ہاتھ رکھ دیا
جیسے کوئی دیا جلا آخر شب کے دشت میں

ایک ہجوم دِلبراں ایک جلوس رفتگاں
بِچھڑا تو ہم سے آملا آخر شب کے دشت میں

اک جو ملال ہجر تھا صبح طلب سے شام تک
ہم نے کہیں گنوا دیا آخر شب کے دشت میں

ایسا لگا کہ اوس میں بھیگے ہوئے درخت سے
موج ہوا نے کچھ کہا آخر شب کے دشت میں

زینہ دل پہ چاپ سی جانے تھی کس خیال کی
درد تلک کوئی نہ تھا آخر شب کے دشت میں


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets