کسی لمبے سفر کی باگ تھامے تونے عجلت میں
مرے ہاتھوں پہ اپنی مسکراتی بولتی تصویر رکھی تھی
اور اس کی پشت پر جلدی میں لکھا تھا
''بچھڑ جانا ضروری ہے''
تمہیں جانے کی چاہت تھی
مجھے کچھ اور چلنا تھا
تمہیں کچھ اور کہنا تھا
مجھے کچھ اور سننا تھا
اداسی سے بھری اس شام ہم دونوں
مخالف سمت اپنی خواہشوں کی سیپیاں چننے کو نکلے تھے
نہ جانے چلتے چلتے کتنے سالوں نے ہمارے تن پہ
اپنی داستاں لکھی
نہ جانے کتنے چہروں نے ہمیں چلتے ہوئے روکا
نہ جانے کتنی بانہوں نے ہمارے راستے روکے
مگر یہ بھی حقیقت تھی!
نہ تم مجھ کو بھلا پائے
نہ میں تم کو بھلا پائی
نہ تیری مسکراتی بولتی تصویر دھندلائی
سسکتے سرد جھونکوں سے بھری اک شام کی یخ بستہ
بانہوں سے
اچانک واپسی کی نرم انگلی تھام کر واپس پلٹ آئی
وہی لمحہ وہی ساعت' وہی رستہ ابھی تک ساکت وبے دم کھڑے تھے
جس جگہ کالے سیہ پتھر پہ شاید تم نے لکھا تھا
''بچھڑ جانا ضروری ہے''
''ملن رت کی دوبارہ واپسی ممکن نہیں ہے''
No comments:
Post a Comment