اتنا تو ہوتا نہیں کوئی کھنڈر شام کے بعد
جتنا ویران ہوا جاتا ہے گھر شام کے بعد
ٹوٹ پڑتی ہے نئی روز خبر شام کے بعد
وقت ہوتا ہے عزابوں میں بسر شام کے بعد
وقت ہوتا ہے عزابوں میں بسر شام کے بعد
میری آنکھوں سے برستے ہوئے دریائوں میں
ڈوب جاتی ہے تری راہ گزر شام کے بعد
ڈوب جاتی ہے تری راہ گزر شام کے بعد
تیرے بخشے ہوئے اندوہ کی گھبراہٹ کا
اور ہی رنگ سے ہوتا ہے اثر شام کے بعد
اور ہی رنگ سے ہوتا ہے اثر شام کے بعد
تم نہیں ہوتے تو پھر درد زمانے بھر کے
آن ملتے ہیں مجھے خاک بہ سر شام کے بعد
آن ملتے ہیں مجھے خاک بہ سر شام کے بعد
شاہ ہو کوئی،گدا ہو یا ولی ہو سب کا
فکر کے بوجھ سے جھک جاتا ہے سر شام کے بعد
فکر کے بوجھ سے جھک جاتا ہے سر شام کے بعد
مل کہ اک شہر بھگو دیتے ہیں تنہائی کا
ایک میں ایک میرا دیدہ تر شام کے بعد
ایک میں ایک میرا دیدہ تر شام کے بعد
گھیر لیتے ہیں مجھے رستے تیری یادوں کے
جب بھی کرتا ہوں ترے بعد سفر شام کے بعد
جب بھی کرتا ہوں ترے بعد سفر شام کے بعد
دن بھی ویراں ہی گزرتا ہے ہمارا لیکن
اور بڑھ جاتا ہے ویرانی کا ڈر شام کے بعد
اور بڑھ جاتا ہے ویرانی کا ڈر شام کے بعد
ہجر کے سائے تو ہر روز ہی آ جاتے ہیں
کیا کبھی ہو گا تمہارا بھی گزر شام کے بعد
کیا کبھی ہو گا تمہارا بھی گزر شام کے بعد
ایک بس تم ہی نہیں رات کے گھائل فرحت
خاک اڑتی ہے ہماری بھی ادھر شام کے بعد
خاک اڑتی ہے ہماری بھی ادھر شام کے بعد
No comments:
Post a Comment