جہاں بھر میں ہمارے عشق کی تشہیر ہوجائے
اُسے کس نے کہا تھا دل پہ یوں تحریر ہو جائے
میں سچا ہوں تو پھر آئے مِری تقدیر ہوجائے
میں جھوٹا ہوں تو میرے جرم کی تعزیر ہوجائے
میں اپنے خواب سے کہتا ہوں آنکھوں سے نکل آئے
ذرا آگے بڑھے اور خواب سے تعبیر ہوجائے
زباں ایسی کہ ہر اک لفظ مرہم سالگے اُس کا
نظر ایسی کہ اُٹھتے ہی دلوں میں تِیر ہو جائے
وہ ہر پَل جس میں اپنے پیار کی یادیں دھڑکتی ہیں
مِری جاگیر ہو جائے، تجھے زنجیر ہو جائے
سبب کچھ تو رہا ہوگا ترے حیدر کی حالت کا
کبھی جو بے سبب ہنس دے، کبھی دلگیر ہوجائے
No comments:
Post a Comment