کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کھلانے والے
آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے
کدھر گئے وہ رستے جن میں منزل پوشیدہ تھی
کدھر گئے وہ ہاتھ مسلسل راہ دکھانے والے
کہاں گئے وہ لوگ جنہیں ظلمت منظور نہیں تھی
دیا جلانے کی کوشش میں خود جل جانے والے
کسی تماشے میں رہتے تو کب کے گم ہوجاتے
اک گوشے میں رہ کر اپنا آپ بچانےو الے
اس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے
اپنی لے سے غافل رہ کر ہجر بیاں کرتے ہیں
آہوں سے ناواقف ہیں یہ شور مچانے والے
عزم یہ شہر نہیں ہے نفسا نفسی کا صحرا ہے
یہاں نہ ڈھونڈو کسی مسافر کو ٹھہرانے والے
No comments:
Post a Comment