Friday 29 March 2013

دہلیز پہ بکھرا ہوا جیسے سامان پڑا ہے


کیوں شہر ِغم ِہجر بیابان پڑا ہے
دل عمر سے سینے میں پریشان پڑا ہے

اک راستہ ہے آنکھوں میں بہت دیر سے خالی
اک شہر ہے سینے میں جو سنسان پڑا ہے

بیماری ِدل وقت زیادہ نہیں دیتی

دیکھ تیرا دیوانہ گھڑیوں کا مہمان پڑا ہے

صحرا کی طرح دھوپ اگاتی ہے محبّت
دل اتنا پیاسا ہے کہ لبِ جان پڑا ہے

اجڑا ہے کوئی تندی حالات کے ہاتھوں
دہلیز پہ بکھرا ہوا جیسے سامان پڑا ہے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets