کیوں شہر ِغم ِہجر بیابان پڑا ہے
دل عمر سے سینے میں پریشان پڑا ہے
اک راستہ ہے آنکھوں میں بہت دیر سے خالی
اک شہر ہے سینے میں جو سنسان پڑا ہے
بیماری ِدل وقت زیادہ نہیں دیتی
صحرا کی طرح دھوپ اگاتی ہے محبّت
دل اتنا پیاسا ہے کہ لبِ جان پڑا ہے
اجڑا ہے کوئی تندی حالات کے ہاتھوں
دہلیز پہ بکھرا ہوا جیسے سامان پڑا ہے
No comments:
Post a Comment