ہمہ وقت رنج و ملال کیا، جو گزر گیا سو گزر گیا
اُسے یاد کر کے نہ دل دکھا، جو گزر گیا سو گزر گیا
نہ گلا کیا نہ خفا ہُوئے، یونہی راستے میں جُدا ہُوئے
نہ تُو بے وفا نہ میں بے وفا، جو گزر گیا سو گزر گیا
وہ غزل کی ایک کتاب تھا، وہ گلوں میں ایک گلاب تھا
ذرا دیر کا کوئی خواب تھا، جو گزر گیا سو گزر گیا
مجھے پت جھڑوں کی کہانیاں نہ سُنا سُنا کے اُداس کر
تُو خزاں کا پھول ہے مُسکرا، جو گزر گیا سو گزر گیا
وہ اُداس دھوپ سمیٹ کر کہیں وادیوں میں گزر چکا
اُسے دل مرے تُو نہ دے صدا، جو گزر گیا سو گزر گیا
یہ سفر تو کتنا طویل ہے، یہاں وقت کتنا قلیل ہے
کہاں لوٹ کر کوئی آئے گا، جو گزر گیا سو گزر گیا
وہ جفائیں تھیں یا وفائیں تھیں، یہ نہ سوچ کس کی خطائیں تھیں
وہ ترا ہے اُس کو گلے لگا، جو گزر گیا سو گزر گیا
کوئی فرق شاہ و گدا نہیں، کہ یہاں کسی کی بقا نہیں
یہ اجاڑ محلوں کی سُن صدا، جو گزر گیا سو گزر گیا
No comments:
Post a Comment