ان کہے سوالوں کا
درد کیسے ہوتا ہے
تشنہ کام خواہشوں کی ٹیس کیسے اٹھتی ہے
بے زبان جذبوں کو جب سِرا نہیں ملتا۔
تشنگی سی رہتی ہے آسرا نہیں ملتا ۔
وہ بھی ان عذابوں سے کاش اس طرح گزرے
کاش اس کی آنکھوں میں خواب بے ثمر اتریں
کاش اس کی نیندوں میں رت جگے مسلسل ہوں
باوجود خواہش کے ایسے سب سوالوں کا
ربط توڑ آیا ہوں
آج اس کے ہونٹوں پر
لفظ چھوڑ آیا ہوں
No comments:
Post a Comment