وہ جو ہجرتوں کی تمازتوں میں سکوں نواز شجر تھا
اسی سایہ دار شجر پہ آج نگاہ برق و شرر ہوئی
وہ غم جہاں کے ہجوم میں، جو ملے تو ایسے بچھڑ گئے
نہ سراغ ان کا مجھے ملا، نہ انھی کو میری خبر ہوئی
شب دید کیا شب ماہ تھی، شب ہجر کیا شب تار ہے۔
شب دید آ کے گزر گئی، شب ہجر کی نہ سحر ہوئی
میرے راز داں میرے نامہ بر، یہ خبر تو دے کبھی آن کر
میرے حال زر کو دیکھ کر، کبھی آنکھ ان کی بھی تر ہوئی
وہ کبھی تو پرسش حال کو،میرے غم کدے کو بھی آئیں گے
اسی آرزو، اسی آس میں ، میری ساری عمر بسر ہوئی
یہ انھی کا چشم فیض ہے ، جو یہاں وہاں*ہے رواں دواں۔
کہ جو ان لبوں سے ادا ہوئی ، وہی بات حرف ہنر ہوئی۔
انھیں بھول جانے کا حوصلہ کوئی کرے تو کیسے کرے کوئی
کہ جہاں جہاں بھی گزر ہوا ، ہو ئی ان کی راہِ گزر ہوئی
No comments:
Post a Comment