یہ لوگوں سے سنا ہے کہ مجھے تم یاد کرتی ہو
مجھے کیوں یاد کرتی ہو
تمہیں پہلی ملاقاتوں میں میں نے یہ بتایا تھا
کہ میں تو اک عجب رستے کا راہی ہوں
میں ہجر و وصل کے سارے فسانے بھول بیٹھا ہوں
کسی تازہ کہانی کا کوئی کردار بننے سے بھی خائف ہوں
تِرے چہرے پہ پھیلی مسکراہٹ جو مِری خاطر تھی
جب سے میں نے دیکھی ہے
تمہیں ملنے میں او لڑکی بڑا محتاط رہتا ہوں
تمہارے رونے دھونے سے زمانے کو بتانے سے
مِرے اندر
کبھی کوئی محبت جاگ ناں پائی
تمہیں میں آج بتلادوں
کہ میں تو ایک قیدی ہوں کسی مُردہ کہانی کا
جو برسوں پہلے میں نے اور تیرے جیسی اک لڑکی نے لکھی تھی
تمہیں دینے کی خاطر اب جو میرے پاس کچھ ہوتا
تمہاری بات کا مجھ پر بھی کچھ نہ کچھ اثر ہوتا
مگر لڑکی مِرے یہ ہاتھ خالی ہیں
مِری نظریں بھی روکھی ہیں
مجھے تم یاد ناں کرنا
جواں لمحوں کو اپنے یوں کبھی برباد نہ کرنا
مجھے تم یاد نا ں کرنا
مجھے تم یاد ناں کرنا
مجھے کیوں یاد کرتی ہو؟
No comments:
Post a Comment