محبّت چیز ایسی ہے
کبھی ہوتی ہے اپنوں سے
کبھی ہوتی ہے سپنوں سے
کبھی انجان راہوں سے
کبھی گمنام ناموں سے
محبّت چیز ایسی ہے
کبھی ہوتی ہے پھولوں سے
کبھی بچپن کے جھولوں سے
کبھی بے -اختیاری میں
کبھی پکے اصولوں سے
محبّت چیز ایسی ہے
محبّت تو محبّت ہے
محبّت ایک صداقت ہے
محبّت ایک عبادت ہے
محبّت چیز ایسی ہے
دکھوں میں رول دیتی ہے
درد انمول دیتی ہے
زہر بھی گھول دیتی ہے
محبّت چیز ایسی ہے
No comments:
Post a Comment