مری آنکھوں سے ظاہر، خوں فشانی، اب بھی ہوتی ہے
نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی، اب بھی ہوتی ہے
بہشتوں سے خفا، دنیائے فانی، اب بھی ہوتی ہے
جنوں کو حرصِ عمرِ جاودانی، اب بھی ہوتی ہے!
سرورآرا، شرابِ ارغوانی، اب بھی ہوتی ہے
مرے قدموں میں دنیا کی جوانی، اب بھی ہوتی ہے!
کوئی جھونکا تو لاتی، ا ے نسیم، اطرافِ کنعاں تک!
سوادِ مصر میں عنبر فشانی، اب بھی ہوتی ہے!
وہ شب کے مشکبو پردوں میں چھپ کر آہی جاتے ہیں
مرے خوابوں پر اُن کی مہربانی، اب بھی ہوتی ہے
کہیں سے ہات آجائے تو ہم کو بھی کوئی لادے!
سُنا ہے اس جہاں میں شادمانی، اب بھی ہوتی ہے!
ہلال و بدر کے نقشے، سبق دیتے ہیں انساں کو
کہ ناکامی، بنائے کامرانی، اب بھی ہوتی ہے!
کہیں اغیار کے خوابوں میں چھپ چھپ کر نہ جاتے ہوں
وہ پہلو میں*ہیں لیکن بدگمانی، اب بھی ہوتی ہے
سمجھتا ہے شکستِ توبہ، اشکِ توبہ کو زاہد
مری آنکھوں کی رنگت، ارغوانی ، اب بھی ہوتی ہے
وہ برساتیں، وہ باتیں، وہ ملاقاتیں کہاں ہمدم!
وطن کی رات ہونے کو سہانی، اب بھی ہوتی ہے!
خفائیں، پھر بھی آکر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں
ہمارے حال پر، کچھ مہربانی، اب بھی ہوتی ہے!
زباں ہی میں نہ ہو تا*ثیر تو میں کیا کروں، ناصح!
تری باتوں سے پیدا، سرگرانی، اب بھی ہوتی ہے!
تمہارے گیسوؤں کی چھاؤں میں اک رات گزری تھی
ستاروں کی زباں پر یہ کہانی، اب بھی ہوتی ہے
پسِ توبہ بھی پی لیتا ہوں، جامِ غنچہ و گُل سے
بہاروں میں جنوں کی میہمانی، اب بھی ہوتی ہے
کوئی خوش ہو، مری مایوسیاں فریاد کرتی ہیں
الٰہی! کیا جہاں میں شادمانی، اب بھی ہوتی ہے!
بتوں کو کر دیا تھا جس نے مجبورِ سخن اختر
لبوں پر وہ نوائے آسمانی ، اب بھی ہوتی
No comments:
Post a Comment