اے شام اسے بتانا
سراب اس کی جستجو کے
نصاب اس کی آرزو کے
چہار سو بکھرے ہوئے ہیں
کسک رتوں کی داستانیں
ہر لفظ میں بند ہیں
میری آنکھیں سائے کی مانند چپ ہیں
مگر اِن میں بسا انتظار
اب بھی زندہ ہے
اے شام اسے بتانا
اسے اپنے اندر زندہ رکھتے رکھتے
میرے سارے جذبے جھلس گئے ہیں
پاسِ وفا کے بھرم میں
میرا سکوں جل چکا ہے
میری آنکھوں میں بس
راکھ ہی راکھ ہے
جن میں ہر لمحہ
اس کی محبت کی چنگاری
بھڑکتی رہتی ہے
اے شام اسے بتانا
پہلے بھی پانیوں میں رہتے تھے
اب بھی سمندر میں گھر بنایا ہے
ڈوبتے
سورج کی زرد روشنی سے
خود کو اضطراب کے سنگھار سے سجایا ہے
ڈھلتی شام سے لے کر
ڈھلتی شام تک
لہو نے اسی کا ریاض کیا ہے
جس سے
میری خلوتیں، میری جلوتیں
ہر گھڑی آباد ہیں
اے شام اس سے پوچھنا
کیا میری ساری راتیں
فراق کی رت میں بسر ہوں گی؟
اور مجھے بتانا کہ
میں خود کو کیسے سمجھاں
کہ ادھوری خواہش
ہونٹوں کو خشک
اور آنکھوں کو نم رکھتی ہے
اے شام اسے بتانا
کہ اِس برباد ، گیلے نگر میں
میں ہی نہیں
وہ بھی رہتا ہے
اس سے کہنا
کہ میرے اندر وہ اس طرح ہے
جس طرح عشا میں وِتر
میرے ساتھ ساتھ بھی
مجھ سے جدا بھی
اے شام اسے بتانا۔ ۔ ۔
No comments:
Post a Comment