شوخی نے تیری کام کیا اک نگاہ میں
صوفی ہے بتکدے میں صنم خانقاہ میں
صوفی ہے بتکدے میں صنم خانقاہ میں
آنکھیں بچھائیں ہم تو عدو کی بھی راہ میں
پر کیا کریں کہ تو ہے ہماری نگاہ میں
پر کیا کریں کہ تو ہے ہماری نگاہ میں
بڑھتا ہوں آگے پوچھ کر اُس سے مقام عشق
جو فتنہ مجھ غریب کو ملتا ہے راہ میں
جو فتنہ مجھ غریب کو ملتا ہے راہ میں
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہاتھا کسی کی نگاہ میں
دو چار دن رہاتھا کسی کی نگاہ میں
راتیں مصیبتوں کی جو گذریں تھیں آج تک
ماتم میں آئے ہیں مرے روز سیاہ میں
ماتم میں آئے ہیں مرے روز سیاہ میں
اُس توبہ پر ہے ناز تجھے زاہد اس قدر
جو ٹوٹ کر شریک ہو میرے گناہ میں
آتی ہے بات بات مجھے یاد بار بار
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں
تاثیربچ کے سنگ حوادث سے آئے کیا
میری دعا بھی ٹھوکریں کھاتی ہے راہ میں
میری دعا بھی ٹھوکریں کھاتی ہے راہ میں
کیسا نظارہ کس کا اشارہ کہاں کی بات
سب کچھ ہے اور کچھ نہیں نیچی نگاہ میں
سب کچھ ہے اور کچھ نہیں نیچی نگاہ میں
جو کینہ آج ہے ترے دل میں ستم شعار
جائے گا کل یہی تو دل داد خواہ میں
جائے گا کل یہی تو دل داد خواہ میں
مشتاق اس صدا کے بہت درد مند تھے
اے داغ تم تو بیٹھ گئے ایک آہ میں
اے داغ تم تو بیٹھ گئے ایک آہ میں
No comments:
Post a Comment