اوّل شب وہ بزم کی رونقِ شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
قید کو توڑ کے نکلا جب میں اُٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
ایک لگی کے دو ہیں اثر اور دونوں حسبِ مراتب ہیں
لو جو لگائے شمع کھڑی ہے ، رقص میں ہے پروانہ بھی
حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ ادھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا اُڑ کے چلا پروانہ بھی
دونوں جولاں گاہ جنوں ہیں ، بستی کیا ویرانہ کیا
اٹھ کے چلا جب کوئی بگولا دوڑ پڑا ویرانہ بھی
دورِ مسرّت آرزو اپنا کیسا زلزلہ آگیں تھا
ہاتھ سے منہ تک آتے آتے چھُوٹ پڑا پیمانہ بھی
No comments:
Post a Comment