Friday, 22 March 2013

ہمراہ لیے جاؤ مِرا دیدہء تَر بھی



ہمراہ لیے جاؤ مِرا دیدہء تَر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی

بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی اور بھَنور بھی
اے بحرِ سُخن، چند صدف، چند گہر بھی

پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اُس پہ تِری ایک نظر بھی

درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدہء تر بھی

یہ شہرِِ جدائی ہے، اندھیرے ہیں شب و روز
اِس شہر میں جلتے ہیں دیئے وقتِ سحر بھی

کچھ پیاس ہے اُس حُسن کو بھی میری نظر کی
کچھ حُسن کا پیاسا ہے مِرا حُسنِ نظر بھی

کیا عِشق ہے، کیا حُسن ہے، کیا جانیئے کیا ہو
محشر ہے اِدھر بھی تو قیامت ہے اُدھر بھی

تُو چشمِ عنایت سے ذرا رُخ تو اِدھر کر
کافی ہے تِری ایک محبت کی نظر بھی

کچھ فرق درست اور غلط میں نہیں باقی
ہر بات پہ کچھ لوگ اِدھر بھی ہیں اُدھر بھی

کھنچنا ہے کہاں تک تجھے بانہوں کی کماں میں
تُو دل کے لیے ہے تو مِرے دل میں اُتر بھی

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets